میری دو بڑی بہنیں پیا دیس سدھار چکی ہے ۔اور اپنے پشاور میں اپنے شوہروں کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے ۔
میرا بائیس سالہ بھائی کریم ابو کے ساتھ کھیتوں میں مدد کرتا ہے ۔
چونکہ میں سب سے چھوٹی ہو اس لئے سب کی لاڈلی بھی ہو ۔
میں نے اس سال میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبرو سے پاس کیا ۔ میری خواہش تھی کے میں آگے پڑھوں لیکن ابو نے سختی سے منع کر دیا ۔بقول ابو ۔
"ہمارے خاندان میں کوئی بھی لڑکی بارہ جماعتوں سے اوپر زیادہ نہیں پڑھی تو میں حسنی کو کیسے اجازت دو ۔"
امّی نے ابو کو بہت فورس کیا ۔استانی بھی ہمارے گھر آئی کے حسنا بہت لائق لڑکی ہے اسے آگے پڑھنے دیا جائے اب زمانہ بدل چکا ہو لوگوں کی سوچوں میں بہت تبدیلیاں آگئی ہے ۔"
ابو کو بہت سمجھایا لیکن ان کے کان پر جُوں تک رینگی ۔
"میں نے کہا نے حسنا آگے نہیں پڑھی گی تو نہیں پڑھی گی ۔بیٹیاں گھر اور شوہر کے کاموں کے لئے ہوتی ہے ۔ بس _"
ابو نے دوٹوک انداز میں بات ختم کر دی ۔
مجھے دکھ تو بہت ہوا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میرا دکھ کم ہوتا گیا ۔
اور میں دلجمعی سے گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی ۔
M. mubeen writer .
میں کچن میں دوپہر کے لئے کھانا بنا رہی تھی ۔کریم پشاور سے آرہا تھا ۔تو تمام ڈشیں اُس کی پسند کی بنائی جارہی تھی ۔
میں بھی پوری توجہ سے کھانا بنانے میں مصروف تھی ۔
امّی ابو لاؤنج میں بھیٹے باتوں میں مصروف تھے ۔
جب میری سماعت نے امی کی آواز سنی ۔
"کریم اب بڑا ہو گیا ہے ۔ اب تو وہ کما بھی رہا ہے ۔اور حسنا بھی گھر میں اکیلی ہے ۔ تمام کام وہ اکیلے کرتی ہے ۔میں تو سارے دن بھیٹی رہتی ہو ۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کے کریم کی شادی کے بارے میں یہ سہی وقت ہے ۔"
امی نے اپنی بات کا اختتام کیا ۔
"مجھے نہیں معلوم کریم کی رائے کیا ہو گی ہمیں اس کی رائے جاننی چاہیے اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کر پاؤ گا ۔"
ابوں نے چائے کی سِپ لیتے ہوئے کہا ۔
"میں نے کریم سے فون پہ بات کی تھی ۔وہ راضی ہے اور گھر کی ذمہ داری سنبھالنے کے قابل ہو گیا ہے اب تو ہم بوڑھے ہو گئے ہے ۔گھر کیا سنبھالے گے ۔ ۔ "
میری والدہ گویا ہوئی ۔
"واہ ماں اور بیٹے کے درمیان تمام باتیں طے ہو گئ ہے ۔اور مجھے اب خبر دے رہے ہیں۔جیسے ہم تو غیر ہے نا "
ابو کے لہجے میں مصنوعی خفگی اور شرارت شامل تھی ۔
"ایسا بھی نہیں ہے اب ۔ "
امی کے لبوں نے ملائم تبسم کا احاطہ کیا ۔
"اچھا لڑکی کون ہے ؟؟۔ کہا رہتی ہے ۔؟؟ نام کیا ہے ؟؟
باپ کیا کرتا ہے ۔؟؟؟
ابو کے لہجے سے بے صبرہ پن ٹپک رہا تھا ۔وہ تمام تر تفصیلات جاننا چاہتے تھے ۔
"اررےےے آرام سے بتاتی ہو ۔ ۔۔جس لڑکی کو ہمارے بیٹے نے پسند کیا ہے ۔ وہ کوئی اور نہیں ہماری شیماں ہے ۔ (شیماں میرے میرے بڑے چچا کی بیٹی تھی ۔)
"شیماں بہت اچھی اور محنتی لڑکی ہے ۔مجھے نہیں لگتا وہ کریم کو شوہر کے روپ میں قبول کرے گی ۔ ساتھ ہی کھیلتے کھیلتے بڑے ہوئے ہے ۔"
ابو نے اپنا خدشہ ظاہر کیا ۔
"مجھے یقین ہے ۔سرفراز اپنی بیٹی کی غیروں میں شادی نہیں کروائے گا ۔آخر ہمارے بیٹے میں کیا کمی ہے ۔ "
امی نے پر اعتماد لہجے میں بولی ۔
"ہمممممم جو ہمارے حق میں بہتر ہو وہی ہوگا ۔ "
ابو بولے ۔
M.mubeem writer
میں بہت خوش تھی .کہ میرے بھائی کی شادی ہونے والی ہے ۔شیماں اچھی اور خوش اخلاق لڑکی تھی وہ جب بھی ہمارے گھر آتی تو مجھے بلکل بھی تنہائی کا احساس نہیں ہوتا ۔
کریم بھی رات کو پہنچ گیا تھا ۔ صبح ناشتے کی میز پر ابو امی نے کریم سے بات کی تو کریم نے رضامندی ظاہر کر دی ۔
پھر شام کو ہی میرے والدین رشتہ لے کر چلے گئے ۔
ایک بار جانے کے بعد تو چچا سرفراز نے انکار کر دیا لیکن امی ابو ہمت نہیں ہارے ۔متعدد بار جانے کے بعد آخر کار اپنے چھوٹے بھائی کے ضد کے سامنے ہارنا پڑھا ۔
اور وہ اس رشتے پر رضا مند ہو گئے ۔
میں روز شیماں سے ملنے جاتی ۔ہمارے خاندان میں لڑکی شادی سے پہلے سسرال میں قدم نہیں رکھ سکتی ۔
کریم بھی موقعہ پاتے شیماں سے مل لیتے لیکن یہ ملاقات مختصر ہوتی ۔
رفتہ رفتہ میں سمجھ گئی کے کریم دورِ لڑکپن سے ہی شیماں کو پسند کرتا ہے ۔
لیکن شیماں کریم کو پسند کرتی ہے یا نہیں یہ مجھے پتہ نہیں تھا ۔
کئی بار پوچھنے پر بھی شیماں نے نہیں بتایا ۔جب بھی ہم اس موضوع پر بات کرتے تو وہ فوراً باتوں کا رخ بدل دیتی یا کام کا بہانہ بنا دیتی ۔
کبھی کبھی مجھے اس سے نفرت ہونے لگتی کہ وہ ایسا جان بوجھ کر کر رہی ہے ۔یا سچ میں وہ کریم کو پسند نہیں کرتی ۔
لیکن مجھے کہنے میں شرم آتی تھی ۔کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی ۔
اس امید پر چپ تھی کہ شاید شادی کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے ۔
M.mubeen writer
چھ ماہ گزر گئے ۔شادی کی تیاریا زوروں پر تھی ۔میری دونوں بہنیں بھی بمعہ پوری فیملی کے آچکی تھی ۔
رشتے دار بھی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے ۔ایک سال سے گاؤں میں کوئی شادی نہیں ہوئی تھی ۔ اس لئے گاؤں میں سب بہت خوش تھے ۔ اور شادی کی تیاریوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے ۔
کریم کے چہرے سے خوشی کے آثار واضح تھے ۔ آخر خوش کیوں نہ ہوں اپنی پسند کی زوجہ جو پالی ۔
تو خوش تو ہونا ہی تھا ۔
شیماں سٹیج پر رکھے بھیٹی شہزادی لگ رہی تھی ۔خوب روپ آیا تھا شیماں پر ۔ لیکن شیماں بہت غمگین لگ رہی تھی ۔وہ ایک بار بھی نہ مسکرائی ۔اس میں شک نہیں کے شادی کے دن ہر لڑکی اداس ہوتی ہے ۔باپ کے گھر سے جانے کا دکھ ہوتا ہے ۔لیکن شیماں تو ہمارے ساتھ ہی پلی بڑی تھی ۔
میں بہت پریشان تھی ۔کئ بار استفسار کیا کہ وہ اتنی اداس کیوں ہے ۔
لیکن اس نے کچھ بھی نہیں کہا ۔
"میں نے ماں اور بہنوں کو بتایا .انہوں نے کہا کے یہ عام سی بات ہے ۔شادی کے دن لڑکی کو ہنسنا نہیں چاہئے ۔اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔
میں شیماں کے قریب جا کر اس کے سائیڈ پر کھڑی ہوگئی ۔آخر جانو تو سہی کے وجہ کیا ہے ۔
۔ مجھے بلّی کی آواز آئی ادھر اُدھر دیکھا بلی تو کہیں نہیں ہے ۔پھر یہ آواز کہا سے آئی ۔
میں ناسمجھی کی عالم میں دیکھ رہی تھی ۔ جب میرے پاؤں پر کوئی چیز گزری ۔بہت ہی نرم اور ملائم تھی ۔ تیزی سے نیچے دیکھا تو وہ کرسی کے نیچے غائب ہو گئی ۔
یہ بلی کی پونچ تھی ۔ بلی بہت کالی تھی ۔میں نیچے جھکی اور کرسی پر پڑھا پردہ ہٹایا ۔ بلّی جو آپس میں سُکڑ کر بیٹھی تھی ۔
اس کی آنکھوں کا رنگ نیلا تھا اندھیرہ ہونے کے باعث اس کی آنکھیں چمک رہی تھی ۔
اس کی غرانے کی مدھم آواز بھی آرہی تھی ۔
مجھے اس کی آنکھوں سے ڈر لگنے لگا ۔
"کیا کر رہی ہو حسنا یہ ۔ ؟؟؟"
شیماں بولی ۔
"یہ کیا ہے شیما ؟؟؟
میں نے پوچھا ۔میری نظریں شیماں کے چہرے کا طواف کر رہی تھی ۔ شیماں کے پریشانی واضح تھی ۔
"یہ بلّی بلکل بے ضرر ہے ۔کسی کو نقصان نہیں پہنچائی گی ۔"
شیماں بولی ۔
"شادی کے دن کالا ہونا اچھا نہیں ہوتا شیماں "
میں نے کہا ۔
"تم اپنے دقیانوسی خیالات اپنے پاس رکھوں اور خود غرض بننے کی کوشش مت کرو ۔"
شیماں ترش لہجے میں بولی ۔اور اپنا پاؤں زور سے میرے پیر پر مارا ۔میں درد سے کھرا اٹھی ۔
شیماں کے تیور اچھے نہیں لگ رہے تھے ۔مجھے شیماں کے نگاہوں سے بھی ڈر لگنے لگا ۔
مجھے خونخوار نظرو سے گھور رہی تھی ۔
شادی سے پہلے ہی شیماں نے لڑائی کا آغاز کر دیا ۔
میرے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔
"یہ بلی میرے ساتھ رہی گی اب ۔"
شیماں بولی ۔
حسنا تلملا کر رہ گئی ۔

No comments:
Post a Comment