پر میرے سپنوں کا تاج محل برے طریقے سے ٹوٹ چکا تھا اگلے دن دادی نے والد صاحب کو کہا کہ رفیق صاحب کے پاس جا کر ان سے پوچھیں ہمارے لائق جو خدمت ہو بتائیں دادی نےمجھے بھی کہا کہ لڑکے تو بھی جا ساتھ اور ٹینٹ وغیرہ کا کوئی کام اپنے ذمے لے لے.. ساتھ ہی یہ کہہ کر کلیجہ جلا دیا کہ محلے کی بچی ہے بہنوں کی طرح ہے جا میرے بچے باپ کے ساتھ جا۔۔۔۔
میں یہ سوچ کہ ساتھ چل دیا کہ شاید شاہ رخ خان کی طرح میں بھی کام کاج کے بہانے اپنی دلہنیا لے اڑوں..
رفیق صاحب کے گھر پہنچے گفت و شنید کے بعد والد صاحب نے ٹینٹ وغیرہ کے لیے میری خدمات پیش کر دیں جسے رفیق صاحب نے یہ کہہ کر قبول کر لی کہ محلے کے بچے ہیں میری بیٹی ان کی بہنوں کی طرح ہے یہ کام نہیں کر ینگے تو اور کون کرے گا میری محبت کو بہن قرار دینے میں پہلے دادی اور اب رفیق صاحب نے حملہ کیا.
جسے ناصرف مردانہ وار برداشت کیا بلکہ چہرے پر خفت زدہ مسکراہٹ سجا کر یہ بھی کہا کہ نہیں جی ہمارا بھی کچھ فرض بنتا ہے
دل دکھی تھا رونے کی کوشش کی تو رونا نہ آیا بلکہ رونے کی کوشش میں سر دکھنے لگا. ۔
آخرکار وہ دن بھی آپہنچا جس دن میری محبت نے کسی اور کا ہو جانا تھا اور میں صبح سے ہی ٹینٹ وغیرہ کے کام میں لگا یہ سوچ رہا تھا کہ آج چودہ فروی کو سارے نوجوان اپنے جانو مانو شونو مونو کے ساتھ پیزا اڑاتے ہیں واہ رئے قسمت میں کرسیاں لگوا رہا ہوں۔
۔دوپہر کو کام نپٹا کر گھر آیا امی نے پوچھا کہ کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے میں نے کہا بس سر درد کر رہا ہے تو دادی نے فوراً کہا کہ صبح ناشتہ ٹھیک سے نہیں کیا ہوگا بھوک کی وجہ سے گیس دماغ کو چڑھ گئی ہوگی اسے خاندانی مجرب پھکی دو۔۔۔۔امی بھاگ کے پھکی لے آئیں۔۔۔۔
میں اپنی طرف سے غم کی تصویر بنا ہواتھا ۔۔۔پر غم تو کسی کو نظر نہیں آیا لیکن اندر کی گیس دادی کی جہاندیدہ گھاگ نطروں میں پتا نہیں کیسے آگئی.
شام کو سب گھر والے تیار ہو کر چلے گئے میں بھی آس پر تیار ہونے لگا کہ کیا پتا عین نکاح کے وقت کسی بات پر بارات واپس چلی جائے تو میں کمال سعادت مندی سے رفیق صاحب کو ممکنہ دل کے دورے سے پچاتے ہوئے خود کو انکی فرزندی کے لیے پیش کردوں۔
۔۔
میں تیار ہو کر گھر سے نکلا تو ستیاناس جائے گلی کے بچوں کا نالی می پتھر مارا اور نالی کے کالے پانی سے سفید کلف شدہ شلوار قمیض پر نقش ونگار بن گئے جھنجھلا کر واپس گھر آیا کپڑے بدلے اور تقریب میں پہنچ گیا.
نا تو بارات واپس گئی نا ہی کوئی مسئلہ ہوا نکاح ہوگیا..
اب کھانا چلنا تھا اتنے میں رفیق صاحب کسی اولمپک کے کھلاڑی کی طرح اڑتے ہوئے میرے پاس آئے اور ایک اور ستم ڈھایا کہ دولہا کے والد بھائی وغیرہ کی میز پر کھانا میں نے پہنچانا ہے آج جب مجھے کسی ویران گوشے میں بیٹھ کر دکھی گانے سننے چاہیے تھے میں صبح سے کرسیاں لگوا رہا تھا اور اب اپنے ہی رقیب کے گھر والوں کھانا بھی ٹھونسا رہا تھا۔۔۔
رقیب کے گھر والے یا تو ازل سے بھوکے تھے یا پھر ان کے پیٹ میں کیڑے تھے کھائے ہی جارہے تھے ادھر دادی کی کھلائی پھکی سے میری بھوک عروج پر تھی بلکہ اب تو واقعی بھوک کی وجہ سےگیس ہو رہا تھا ادھر رقیب کا والد کوفتوں پر بری طرح فریفتہ ہو چکا تھا چھٹی بار ڈش پکڑا رہا تھا کہ رقیب ے والد کی گرفت ڈھیلی پڑی تو سارا سالن مجھ پر گر گیا غصہ تو بہت آیا پر خاموشی کے علاوہ کر بھی کیا سکتا تھا۔جب رقیب کے گھر والے کھا مر چکے اور میں اپنے لیے کھانا لینے گیا تو کھانا ختم ہو چکا تھا۔
۔
اتنے میں رخصتی کا شور بلند ہوا دلہا دلہن گاڑی میں بیٹھے تو گاڑی سٹارٹ نہ ہوئی رفیق صاحب نے ایک دو لڑکوں سے کہا دھکا لگاو ساتھ ہی مجھ پر نظر پڑی اور ہاتھ کے اشارے سے بلا لیا مجھے لگا کہ رفیق صاحب مجھے چڑانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں میں نے ساتھ کھڑے دلہن کے کزن کو کہا چلو دھکا لگواؤ اس نے کہا کہ میری ٹانگ پر پھوڑا نکلا ہوا ہے میں دھکا نہیں لگا سکتا..
اب میں اپنے دل کا پھوڑا کسے دکھاتا سو پیچ و تاب کھاتا دھکا لگوانے لگا کہ اچانک پاؤں پھسلا اور نالی میں چلا گیا پاؤں باہر نکالا.. جراب گیلی بوٹ پر پتا نہیں کیا الم غلم لگا تھا اب غصہ جھنجھلاہٹ کے ساتھ کراہت بھی آرہی تھی
میں سامان سمینٹوا کر گھر آیا تو دادی نے دیکھتے ہی کہا لڑکے ایک بات تو بتا تجھے نالیاں پسند ہیں یا تم نالیوں کو پسند ہو۔
۔ہمیشہ تم ہی نالیوں میں گرتے ہو اور جل تھل ہو کہ آتے ہو ورنہ تو ہماری خاندانی تاریخ میں ایسا واقعہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملےگا۔۔
میں چپ چاپ پاؤں دھو کر آیا امی سے کھانا مانگا اور اپنے کھانا نہ ملنے کی روئیداد سنائی امی فکرمند ہوگئی کہ سوائے کل کے بچے ہوئے تھوڑے سے سالن کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔۔۔۔کیا کرتا وہ ہی کھایا تھکا ہارا سونے چلا گیا لیٹتے ہوئے آج کے دن کے بارے میں سوچنے لگا کہ کیا ویلنٹائن کا دن تھا جس میں محبوب کی شادی کی کرسیاں سیٹ کی رقیب کے گھر والوں کو کھانا کھلایا دو نالی کے پانی سے سیراب ہوا ایک دفعہ سالن گرا محبوب کی گاڑی کو دھکا لگا کر رخصت بھی کیا. ..



No comments:
Post a Comment