Urdu Font Story آخر میرا کیا قصور

 آخر میرا کیا قصور
امی مجھے مجبور نہ کرو اس شادی سے
مجھے نہیں کرنی اس لڑکی سے شادی
ماں نے غصے سے بولا
توں بکواس نا کر اتنی پیاری لڑکی ہے خوبصورت ہے
سمجھدار ہے حافظہ قرآن ہے۔۔۔۔۔۔تم کو کیا ناچنے گانے والی لڑکی چاہیئے
اسد نے پانی کا گلاس دیوار کے ساتھ مارا
مجھے نہیں کرنی شادی اس سے بس
ماں باپ نے مجبور کیا
اسد مان گیا ٹھیک ہے کر لیتا ہوں شادی اگر مجھے اچھی نا لگی تو طلاق دے دوں گا
باپ نے گالی دی کمینے انسان کسی کی بیٹی کی زندگی برباد نہ کرنا
مناہل کو کہاں معلوم تھا جس کے ساتھ وہ بیاہ کر جا رہی ہے وہ مجبوری میں قبول کر رہا ہے اسے
مناہل اور اسد کی شادی ہو گئی
مناہل اچھی لڑکی تھی بہت اچھی
کب کون نصیب میں آ جایے
کب چلتے چلتے کوئ ہاتھ تھام کر زندگی کو جنت بنا دے
اور کب کوئی جنت سی زندگی کو جہنم بنا دے کون جانتا ہے
آنے والی سانس موت لے کر آئے گی یا زندگی کون جانے
مناہل کے خواب تو تھے لیکن مناہل کا باپ تھا ماں مر چکی تھی بڑے تین بھائی تھے وہ بھی شادی شدہ تھے
کون بھلا پوچھتا ہے بہنوں کو اپنا گھر آباد کرنے کے بعد
خیر مناہل کی شادی ہو گئی اسد سے
پہلی رات تھی مناہل بہت رو رہی تھی اسد پاس بیٹھا موبائل پہ مصروف تھا
پہلی رات پہلی ملاقات مناہل کو اپنی ماں کی یاد ستا رہی تھی
آج ماں زندہ ہوتی تو اس کے سینے لگ کر وداع ہوتی
ماں کے بنا بیٹیاں خود کو اکیلا محسوس کرتی ہیں
اسد نے مناہل کی طرف دیکھا آنکھیں سرخ تھیں رو رو کر
بے بس سی تھی اداسی تھی چہرے پہ
اسد کو مناہل پہلے ہی پسند نہیں تھی
مناہل کہ طرف دیکھتے ہوئے بولا اب کیوں تو رہی ہے
تم کو کوئی پھانسی تو نہیں دے رہا نا
اپنی منحوس آواز بند کر مجھے بہت برا لگ رہا ہے
مناہل اسد کے اس رویے پہ اور پریشان ہو گئی
خیر رات گزر گئی اسد نے جانور سا سلوک کیا مناہل کے ساتھ
مناہل خاموش رہی لڑکیاں بہت عجیب ہوتی ہیں
بہت کچھ سہتی ہیں بھوک طعنے غریبی پھر بھی خاموش رہتی ہیں
اسد دوسرے شہر میں ایک کپڑے کی فیکٹری میں کام کیا کرتا تھا
فیکٹری والوں نے ایک روم دیا تھا فیملی کے لیئے اسد کو ۔اسد کچھ مہینے بعد مناہل کو اپنے ساتھ لے گیا
گھر سے بہت دور
مناہل اپنے شہر اپنے گھر سے اپنے ہمسفر کے ساتھ بہت دور ایک شہر میں جا بسی تھی
ایک محلہ جو بہت عجیب سا تھا
یہاں لوگ اپنے کام سے کام رکھتے تھے کوئی مر رہا یا جی رہا کسی کو کسی سے کوئی مطلب نہ تھا
مناہل کمرے میں داخل ہوئی سارا سامان مناہل نے اٹھا رکھا تھا
اسد چلا کر بولا جلدی سے اب سارے کمرے کی صفائی کر میں آتا ہوں
مناہل تھک چکی تھی اسد باہر چلا گیا
مناہل بیڈ پہ لیٹ گئ سوچا کچھ دیر آرام کر لوں پھر کمرے کی صفائی کروں گی
لیٹی ہی تھی کے آنکھ لگ گی سو گئی
رات کا ٹائم ۔تھا اسد گھر آیا دیکھا مناہل سوئی ہوئی ہے
سامان ایسے ہی بکھرا پڑا ہے ۔
اتنے کمینی عورت ہے
میں کہہ کر بھی گیا تھا کمرے کی صفائی کر دیکھو جیسے باپ نے نوکر رکھے ہوئے ہیں کیسے سوئی ہوئی ہے
اسد نے گالی دے کر چلانا شروع کیا
مناہل ڈر سی گئی سہم گئی
اسد نے مناہل کے منہ پہ تھپڑ دے مارا
میں کیا کہہ کر گیا تھا سمجھ آتی ہے یا نہیں
مناہل آہستہ سے بولی میں تھک گئی تھی آنکھ لگ گئی
بس کر دیتی ہوں صفائی۔
جلدی سے برش پکڑا صفائی کرنے لگ گئی
تھپڑ کا درد منہ پہ نہیں روح پہ ہو رہا تھا
صفائی مکمل کی اشد کھانا باہر سے لے کر آیا تھا خود کھا کر سو گیا جو بچا ہوا تھا تھوڑا سا
وہ کھانا مناہل نے کھایا اور بے بسی میں لیٹ گئی
صبح بنا بتائے اسد کام پہ چلا گیا
مناہل سوچ رہی تھی اسد میرے ساتھ ایسا کیوں کرتا ہے مجھے گالیاں دیتا ہے مجھے مارتا ہے
ایسی لائف تو نہیں چاہی تھی نا میں نے
کچھ مہنے گزرے فون آیا باپ گزر گیا
اسد سے کہا میرے ابو فوت ہو گئے ہیں مجھے لے چلو گھر
اسد نے منہ بنا کر کہا جانا ہے تو اکیلی جاو
میرے پاس ابھی بلکل بھی پیسے نہیں ہیں تم۔نے جانا ہے تو چلی جاو
اتنا دور کا سفر مناہل نہی کر سکتی تھی
باپ کا آخری دیدار بھی نہ کر سکی
بہت روئی تھی باپ کو یاد کر کے بہت روئی
لیکن کیا کرتی نصیبوں کی ماری تھی خاموش تھی
خوبصورت تو بہت تھی لیکن نصیب بہت بد صورت تھے
شادی کو دو سال گزر گئے ہر روز گالیاں دیتا اسد
ہر روز برابھلا کہتا تھا
3
ایک دن اسد بہت بھوکا گھر آیا مناہل کو تیز بخار تھا
کھانا اچھا نا بن سکا مرد تیز ہو گئی کھانے میں
اسد نے کھانا شروع کیا اتنی مرچ ڈال دہ کھانے میں
مناہل اپنا درد چھپاتے ہوئے بولی کھا لیں مجھ سے ایسا ہی بنتا ہے
اسد نے بالوں سے پکڑا کمینی عورت یہ حرام کے پیسے نہیں ہیں
اس نے بلاوجہ بہت مارا مناہل کو مناہل کی رونے کی باہر جا ری تھی
سات والے گھر میں ایک لڑکا واصف آیا تھا وہ پڑھا لکھا سلجھا ہوا تھا
اس نے دیکھا ساتھ والے گھر سے رونے کی آواز آ رہی ہے


No comments:

Post a Comment